ہے جو بے منتِ ترکیبِ عناصر اے دوست
کس کو سمجھاوں وہ اک جذبہ نادر اے دوست
بات شہ رگ کی نہیں، جذبئہ بیدار کی ہے
کیجیئے فدیہِ خنجر سرِ خاطر اے دوست
جن کی ہیبت سے تھمی رہ گئی رفتارِ فلک
ہم نے دیکھے ہیں کچھ ایسے بھی منظر اے دوست
تیرے اصرارِ بیاں ہی نے سہارا بخشا
ہو نہ سکتا تھا غمِ دل کبھی ظاہر اے دوست
ٹھیس لگ جائے نہ آسودہ طبیعت کو تری
تشنگی پی کے جیا ہوں تری خاطر اے دوست
وقت خود ہے ابھی منت کش تیشہ ورنہ
ہو نہ سکتا تھا یہ انساں کبھی جابر اے دوست
بس کے ہے صبر، حدودِ بشریت سے پرے
جبرِ حالات پہ رہیے ابھی شاکر اے دوست